مصارف زکاۃ میں سبیل الله کا مراد
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اعداد : ھارون رشید خواجہ
اصول تفسیر اور اصول فقہ میں متفق اصول یہ ہے کہ قرآن کے عموم کی تخصیص یا مطلق کی تقیید کے لیے دلیل کا ہونا ضرور ی ہے بغیر دلیل کے کسی بھی عموم کی تخصیص اور مطلق کی تقیید جائز نہیں ہے ، پھر اس میں اختلاف ہے کہ قطعی ثبوت ( قرآن اور حدیث متواتر )کے عموم کی تخصیص اور مطلق کی تقیید کے لیے قطعی ثبوت کا ہی ہونا ضروری ہے یا یہ کہ اس میں صحیح خبر واحد ( ایک یا دو سندوں والی حدیث ) بھی کافی ہے ۔ احناف کے نزدیک قطعی ثبوت کی تخصیص یا تقیید کے لیے قطعی ثبوت کا ہونا ضروری ہے ۔ لہذا جب یہاں پر غور کیا جائے تو اللہ تعالی کے فرمان ” سبیل اللہ ” کے الفاظ کا دائرہ ایسا وسیع ہے کہ قطعی ثبوت سے جس کی نہ تخصیص ثابت ہے اور نہ ہی کوئی قید موجود ہے ۔ لہذا اس اصول کے ہوتے ہوئے احناف کے نزدیک یہ کس طرح صحیح ہوگا کہ بغیرقطعی ثبوت کے قطعی ثبوت کی قید لگائی جائے یا اس کی تخصیص کی جائے ۔ احناف کے نزدیک اس کا مطلب “مجاہد في سبیل اللہ ” ہےاور وہ بھی ایسا مجاہد جو فقیر ہو ، مزید یہ بھی کہتے ہیں کہ جہاد کے سب کاموں میں زکاۃ لگانا جائز نہيں ہے کیوں کہ اس میں تملیک ( مالک بنانا ) شرط ہے ۔ حالاں کہ اگر غور کیا جائے تو اس طرح کی قیود کسی بھی دلیل سے ثابت نہیں ہیں ، اللہ تعالی نے فرمایا : ” في سبیل اللہ ” لفظ سبیل پر کسرہ ” في ” کی وجہ سے ہے نہ کہ ” ل ” سے ہے جو تملیک کا معنی دے سکتا تھا ، لہذا معلوم ہوا کہ سبیل اللہ میں تملیک شرط نہیں ہے ۔ مجاہد ، غارم ( قرض دار ) ، تالیف قلوب میں فقر کی شرط لگانا ثابت نہيں ہے جیسا کہ کہا گیا ہے: ” الْفَقْرَ شَرْطٌ فِي جَمِيعِ الْأَصْنَافِ إلَّا الْعَامِلَ وَالْمُكَاتَبَ وَابْنَ السَّبِيلِ” ( رد المختار / ج 7 / 206 ) یعنی : عامل ، مکاتب ( غلام ) اور ابن السبیل ( راستے میں پھنسے ہوئے محتاج) کے علاوہ باقی تمام قسموں میں فقیر ہونا شرط ہے۔ حدیث میں آيا ہے : عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ : لاَ تَحِلُّ الصَّدَقَةُ لِغَنِيٍّ إِلاَّ لِخَمْسَةٍ : لِعَامِلٍ عَلَيْهَا ، أَوْ لِغَازٍ فِي سَبِيلِ اللهِ ، أَوْ غَنِيٍّ اشْتَرَاهَا بِمَالِهِ ، أَوْ فَقِيرٍ تُصُدِّقَ عَلَيْهِ فَأَهْدَاهَا لِغَنِيٍّ ، أَوْ غَارِمٍ ( ابن ماجۃ / 1841 / صححہ الامام الالباني )ترجمہ : حضرت ابو سعید خدری ( رضی اللہ عنہ ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : زکاۃ غنی کے لیے جائز نہیں ہے، سوائے پانچ ( صورتوں ) میں : عامل ( جمع کرنے والے مزدور کے لیے جائز ہے ) اللہ کی راہ میں غازی ( مجاہد ) ،یا ایسا غنی ( مالدار ) جو اپنے مال سے اسے خرید لے ( جائز ہے ) ، یا کسی فقیر کو زکاۃ دی جائے پھر وہ کسی غنی کو ہدیہ دے ، یا قرض دار کے لیے ( بھی جائز ہے ) ۔ حديث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مجاہد اور غارم کے لیے فقر کی شرط لگانا حدیث کے خلاف ہے ۔ بہت سے مفسرین نے ” سبیل اللہ ” کا مطلب جہاد في سبیل اللہ بتایا ہے، پھر بعض نے جہاد سے مراد صرف قتال لیا ہے اور بعض نے تعلیم اور دعوت و تبلیغ بھی اس میں شامل کیا ہے کیوں کہ دونوں کا مقصد اللہ کے دین کی سر بلندی ہے لہذا دونوں شامل ہونگے ۔ جن علماء نے جہاد سے صرف قتال مراد لیا ہے اگرچہ وہ اس کے قائل ہیں کہ قطعی ثبوت ( قرآن اور حدیث متواتر ) کی تخصیص یا تقیید کے لیے خبر واحد ( ایک یا دو سندوں والی حدیث ) بھی کافی ہے ، تاہم میرے علم کے مطابق ان کے پاس ایسی کوئی صریح دلیل نہیں ہے کہ جس سے صرف قتال کا تعین کیا جائے ۔ بطور دلیل یہ کہنا کہ ” قرآن اور حدیث میں بہت سی دلائل میں سبیل اللہ کا مطلب قتال ہے ” کافی نہیں ہے ، کیوں کہ قرآن اور حدیث میں بہت سی دلائل میں سبیل اللہ کا معنی قتال کے بغیر دیگر معانی بھی مراد لیے گیے ہیں جو کسی بھی عالم دین پر مخفی نہیں ہیں بطور مثال کچھ قرآنی آیات کا حوالہ دیا جاتا ہے : سبیل اللہ میں خرچ کرنا : ان آيات کے حوالہ جات جن میں سبیل اللہ میں خرچ کرنے کا بیان ہے: (2/ سورۃ البقرۃ / 195) ، ( 47 / سورۃ محمد / 38 ) ، (2/ سورۃ البقرۃ / 261) ، (2 / سورۃ البقرۃ / 262)، ( 9 / التوبۃ/ 34 ) ، ( 9 / سورۃ التوبۃ / 60 )سبیل اللہ سے گمراہ ہونا : ان آیات کے حوالہ جات جن میں سبیل اللہ سے گمراہ ہونے یا گمراہ کرنے کا بیان ہے : ( 6 / سورۃ الانعام / 116 ) ، ( 22/ سورۃ الحج / 8 ، 9 ) ، ( 31 / سورۃ لقمان / 6 ) ، ( 38 / سورۃ ص / 26 ) ، ( 16 / سورۃ النحل / 125 ) ، ( 6/ سورۃ الانعام / 117 )سبیل اللہ میں رکاوٹ : ان آیات کے حوالہ جات جن میں سبیل اللہ میں رکاوٹ ڈالنے کا بیان ہے :
(2 / سورۃ البقرۃ / 217 ) ، (3/ سورۃ آل عمرآن / 99 ) ، ( 4/ سورۃ النساء / 160 ) ، ( 4/ سورۃ النساء / 167 ) ، ( 7 / سورۃ الاعراف / 45 ) ، ( 7 / سورۃ / 85 ) ، ( 8 / سورۃ الانفال / 36 ) ( 8 / سورۃ الانفال / 47 ) ، ( 11 / سورۃ ھود / 19 ) ، ( سورۃ ابراھیم / 3 ) ، ( سورۃ النحل / 88 ) ، (16 / سورۃ النحل / 94 ) ، (22 / سورۃ الحج / 25 ) ، ( 47 / سورۃ محمد / 1 ) ، ( 47 / سورۃ محمد / 32 ) ، (47 / سورۃ محمد / 34 ) ، ( 58 / سورۃ المجادلۃ / 16 ) ،( 63 / سورۃ المنافقون / 2 )راجح : دلائل پر غور کرنے کے بعد مجھے یہ درست معلوم ہوتا ہے کہ مصارف زکاۃ میں سبیل اللہ سے مراد اللہ کے دین کی سربلندی ہے جس میں دینی تعلیم اور دعوت الی اللہ کے تمام ذرائع بھی شامل ہیں ، اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے : عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ :سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ يَقُولُ : مَنْ جَاءَ مَسْجِدِي هَذَا ، لَمْ يَأْتِهِ إِلاَّ لِخَيْرٍ يَتَعَلَّمُهُ أَوْ يُعَلِّمُهُ ، فَهُوَ بِمَنْزِلَةِ الْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللهِ ، وَمَنْ جَاءَ لِغَيْرِ ذَلِكَ ، فَهُوَ بِمَنْزِلَةِ الرَّجُلِ يَنْظُرُ إِلَى مَتَاعِ غَيْرِهِ ( ابن ماجۃ / 227 / صححہ الامام الألباني )ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ( رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتے سنا : جو میری اس مسجد ( یعنی مسجد نبوی ) میں اس غرض سے آئے کہ خیر ( یعنی علم ) سیکھے یا سکھائے تو وہ مجاہد في سبیل اللہ کی منزلت میں ہے ، اور جو اس کے بغیر کسی اور کے لیے آئے تو وہ ایسے شخص کی منزلت میں ہے جو دوسروں کے مال کی طرف دیکھتا ہے ۔ اس حدیث میں طالب علم کو سبیل اللہ میں جہاد کرنے والے کا درجہ دیا گیا ہے ۔ لہذا اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ مصارف زکاۃ میں سبیل اللہ سے اصل میں اللہ کے دین کی سر بلندی ہی مراد ہے ۔ آج کے دور میں خصوصا وادی کشمیر میں علم دین کی انتہائی کمی ہے ، یہی وجہ ہے کہ شرک ، خرافات ، بدعات، شخص پرستی ، تنظیم پرستی اور حزبیت وغیرہ جیسے مہلک امورعروج پر ہیں اور قرآن و حدیث کی نصوص کو بالائے تاک رکھا جاتا ہے ۔ لہذا ان حالات میں یہاں وادی کشمیر میں اللہ کے دین کی سربلندی تب تک ہرگز ممکن نہيں ہے جب تک قرآن اور صحیح احادیث کی تعلیم منہج صحابہ رضی اللہ عنہم کے مطابق عام نہ کی جائے ، اور اس کام کے لیے زکاۃ کا استعمال بلکل جائز ہے ، بلکہ وقت کا تقاضا بھی یہی ہے ۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ مجھے اور سب مسلمانوں کو دین سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ ھذا ما عندي و اللہ اعلم بالصواب
اعداد : ھارون رشید خواجہاصول تفسیر اور اصول فقہ میں متفق اصول یہ ہے کہ قرآن کے عموم کی تخصیص یا مطلق کی تقیید کے لیے دلیل کا ہونا ضرور ی ہے بغیر دلیل کے کسی بھی عموم کی تخصیص اور مطلق کی تقیید جائز نہیں ہے ، پھر اس میں اختلاف ہے کہ قطعی ثبوت ( قرآن اور حدیث متواتر )کے عموم کی تخصیص اور مطلق کی تقیید کے لیے قطعی ثبوت کا ہی ہونا ضروری ہے یا یہ کہ اس میں صحیح خبر واحد ( ایک یا دو سندوں والی حدیث ) بھی کافی ہے ۔ احناف کے نزدیک قطعی ثبوت کی تخصیص یا تقیید کے لیے قطعی ثبوت کا ہونا ضروری ہے ۔ لہذا جب یہاں پر غور کیا جائے تو اللہ تعالی کے فرمان ” سبیل اللہ ” کے الفاظ کا دائرہ ایسا وسیع ہے کہ قطعی ثبوت سے جس کی نہ تخصیص ثابت ہے اور نہ ہی کوئی قید موجود ہے ۔ لہذا اس اصول کے ہوتے ہوئے احناف کے نزدیک یہ کس طرح صحیح ہوگا کہ بغیرقطعی ثبوت کے قطعی ثبوت کی قید لگائی جائے یا اس کی تخصیص کی جائے ۔ احناف کے نزدیک اس کا مطلب “مجاہد في سبیل اللہ ” ہےاور وہ بھی ایسا مجاہد جو فقیر ہو ، مزید یہ بھی کہتے ہیں کہ جہاد کے سب کاموں میں زکاۃ لگانا جائز نہيں ہے کیوں کہ اس میں تملیک ( مالک بنانا ) شرط ہے ۔ حالاں کہ اگر غور کیا جائے تو اس طرح کی قیود کسی بھی دلیل سے ثابت نہیں ہیں ، اللہ تعالی نے فرمایا : ” في سبیل اللہ ” لفظ سبیل پر کسرہ ” في ” کی وجہ سے ہے نہ کہ ” ل ” سے ہے جو تملیک کا معنی دے سکتا تھا ، لہذا معلوم ہوا کہ سبیل اللہ میں تملیک شرط نہیں ہے ۔ مجاہد ، غارم ( قرض دار ) ، تالیف قلوب میں فقر کی شرط لگانا ثابت نہيں ہے جیسا کہ کہا گیا ہے: ” الْفَقْرَ شَرْطٌ فِي جَمِيعِ الْأَصْنَافِ إلَّا الْعَامِلَ وَالْمُكَاتَبَ وَابْنَ السَّبِيلِ” ( رد المختار / ج 7 / 206 ) یعنی : عامل ، مکاتب ( غلام ) اور ابن السبیل ( راستے میں پھنسے ہوئے محتاج) کے علاوہ باقی تمام قسموں میں فقیر ہونا شرط ہے۔ حدیث میں آيا ہے : عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ : لاَ تَحِلُّ الصَّدَقَةُ لِغَنِيٍّ إِلاَّ لِخَمْسَةٍ : لِعَامِلٍ عَلَيْهَا ، أَوْ لِغَازٍ فِي سَبِيلِ اللهِ ، أَوْ غَنِيٍّ اشْتَرَاهَا بِمَالِهِ ، أَوْ فَقِيرٍ تُصُدِّقَ عَلَيْهِ فَأَهْدَاهَا لِغَنِيٍّ ، أَوْ غَارِمٍ ( ابن ماجۃ / 1841 / صححہ الامام الالباني )ترجمہ : حضرت ابو سعید خدری ( رضی اللہ عنہ ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : زکاۃ غنی کے لیے جائز نہیں ہے، سوائے پانچ ( صورتوں ) میں : عامل ( جمع کرنے والے مزدور کے لیے جائز ہے ) اللہ کی راہ میں غازی ( مجاہد ) ،یا ایسا غنی ( مالدار ) جو اپنے مال سے اسے خرید لے ( جائز ہے ) ، یا کسی فقیر کو زکاۃ دی جائے پھر وہ کسی غنی کو ہدیہ دے ، یا قرض دار کے لیے ( بھی جائز ہے ) ۔ حديث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مجاہد اور غارم کے لیے فقر کی شرط لگانا حدیث کے خلاف ہے ۔ بہت سے مفسرین نے ” سبیل اللہ ” کا مطلب جہاد في سبیل اللہ بتایا ہے، پھر بعض نے جہاد سے مراد صرف قتال لیا ہے اور بعض نے تعلیم اور دعوت و تبلیغ بھی اس میں شامل کیا ہے کیوں کہ دونوں کا مقصد اللہ کے دین کی سر بلندی ہے لہذا دونوں شامل ہونگے ۔ جن علماء نے جہاد سے صرف قتال مراد لیا ہے اگرچہ وہ اس کے قائل ہیں کہ قطعی ثبوت ( قرآن اور حدیث متواتر ) کی تخصیص یا تقیید کے لیے خبر واحد ( ایک یا دو سندوں والی حدیث ) بھی کافی ہے ، تاہم میرے علم کے مطابق ان کے پاس ایسی کوئی صریح دلیل نہیں ہے کہ جس سے صرف قتال کا تعین کیا جائے ۔ بطور دلیل یہ کہنا کہ ” قرآن اور حدیث میں بہت سی دلائل میں سبیل اللہ کا مطلب قتال ہے ” کافی نہیں ہے ، کیوں کہ قرآن اور حدیث میں بہت سی دلائل میں سبیل اللہ کا معنی قتال کے بغیر دیگر معانی بھی مراد لیے گیے ہیں جو کسی بھی عالم دین پر مخفی نہیں ہیں بطور مثال کچھ قرآنی آیات کا حوالہ دیا جاتا ہے : سبیل اللہ میں خرچ کرنا : ان آيات کے حوالہ جات جن میں سبیل اللہ میں خرچ کرنے کا بیان ہے: (2/ سورۃ البقرۃ / 195) ، ( 47 / سورۃ محمد / 38 ) ، (2/ سورۃ البقرۃ / 261) ، (2 / سورۃ البقرۃ / 262)، ( 9 / التوبۃ/ 34 ) ، ( 9 / سورۃ التوبۃ / 60 )سبیل اللہ سے گمراہ ہونا : ان آیات کے حوالہ جات جن میں سبیل اللہ سے گمراہ ہونے یا گمراہ کرنے کا بیان ہے : ( 6 / سورۃ الانعام / 116 ) ، ( 22/ سورۃ الحج / 8 ، 9 ) ، ( 31 / سورۃ لقمان / 6 ) ، ( 38 / سورۃ ص / 26 ) ، ( 16 / سورۃ النحل / 125 ) ، ( 6/ سورۃ الانعام / 117 )سبیل اللہ میں رکاوٹ : ان آیات کے حوالہ جات جن میں سبیل اللہ میں رکاوٹ ڈالنے کا بیان ہے :
(2 / سورۃ البقرۃ / 217 ) ، (3/ سورۃ آل عمرآن / 99 ) ، ( 4/ سورۃ النساء / 160 ) ، ( 4/ سورۃ النساء / 167 ) ، ( 7 / سورۃ الاعراف / 45 ) ، ( 7 / سورۃ / 85 ) ، ( 8 / سورۃ الانفال / 36 ) ( 8 / سورۃ الانفال / 47 ) ، ( 11 / سورۃ ھود / 19 ) ، ( سورۃ ابراھیم / 3 ) ، ( سورۃ النحل / 88 ) ، (16 / سورۃ النحل / 94 ) ، (22 / سورۃ الحج / 25 ) ، ( 47 / سورۃ محمد / 1 ) ، ( 47 / سورۃ محمد / 32 ) ، (47 / سورۃ محمد / 34 ) ، ( 58 / سورۃ المجادلۃ / 16 ) ،( 63 / سورۃ المنافقون / 2 )راجح : دلائل پر غور کرنے کے بعد مجھے یہ درست معلوم ہوتا ہے کہ مصارف زکاۃ میں سبیل اللہ سے مراد اللہ کے دین کی سربلندی ہے جس میں دینی تعلیم اور دعوت الی اللہ کے تمام ذرائع بھی شامل ہیں ، اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے : عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ :سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ يَقُولُ : مَنْ جَاءَ مَسْجِدِي هَذَا ، لَمْ يَأْتِهِ إِلاَّ لِخَيْرٍ يَتَعَلَّمُهُ أَوْ يُعَلِّمُهُ ، فَهُوَ بِمَنْزِلَةِ الْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللهِ ، وَمَنْ جَاءَ لِغَيْرِ ذَلِكَ ، فَهُوَ بِمَنْزِلَةِ الرَّجُلِ يَنْظُرُ إِلَى مَتَاعِ غَيْرِهِ ( ابن ماجۃ / 227 / صححہ الامام الألباني )ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ( رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتے سنا : جو میری اس مسجد ( یعنی مسجد نبوی ) میں اس غرض سے آئے کہ خیر ( یعنی علم ) سیکھے یا سکھائے تو وہ مجاہد في سبیل اللہ کی منزلت میں ہے ، اور جو اس کے بغیر کسی اور کے لیے آئے تو وہ ایسے شخص کی منزلت میں ہے جو دوسروں کے مال کی طرف دیکھتا ہے ۔ اس حدیث میں طالب علم کو سبیل اللہ میں جہاد کرنے والے کا درجہ دیا گیا ہے ۔ لہذا اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ مصارف زکاۃ میں سبیل اللہ سے اصل میں اللہ کے دین کی سر بلندی ہی مراد ہے ۔ آج کے دور میں خصوصا وادی کشمیر میں علم دین کی انتہائی کمی ہے ، یہی وجہ ہے کہ شرک ، خرافات ، بدعات، شخص پرستی ، تنظیم پرستی اور حزبیت وغیرہ جیسے مہلک امورعروج پر ہیں اور قرآن و حدیث کی نصوص کو بالائے تاک رکھا جاتا ہے ۔ لہذا ان حالات میں یہاں وادی کشمیر میں اللہ کے دین کی سربلندی تب تک ہرگز ممکن نہيں ہے جب تک قرآن اور صحیح احادیث کی تعلیم منہج صحابہ رضی اللہ عنہم کے مطابق عام نہ کی جائے ، اور اس کام کے لیے زکاۃ کا استعمال بلکل جائز ہے ، بلکہ وقت کا تقاضا بھی یہی ہے ۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ مجھے اور سب مسلمانوں کو دین سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ ھذا ما عندي و اللہ اعلم بالصواب